ٹیکنالوجی

سنیتا ولیمس مشرف بہ اسلام؟

Posted on 23/08/2007. Filed under: ٹیکنالوجی, اسلام |

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

اب لگ پتہ جائےگا

Posted on 07/11/2006. Filed under: ٹیکنالوجی, طنز و مزاح |

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

مدد Help

Posted on 31/03/2006. Filed under: ٹیکنالوجی |

میں ڈائل اپ انٹرنیٹ کنکشن استعمال کرتا ہوں، انٹرنیٹ یوز کرنے کے دوران میں چاہتا ہوں کہ میرا فون بھی استعمال میں رہے یعنی نٹ استعمال کرتے ہوئے میں فون کر اور سن بھی سکوں۔ اس کا کوئی طریقہ یا کوئی سافٹ وئیر ہو تو برائے مہربانی میری مدد کیجیئے۔

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

سیکورٹی کیمرے اور قانون

Posted on 28/01/2006. Filed under: ٹیکنالوجی, پاکستان |

پاکستان سے خبر آئی ہے کہ ملتان میں سیکورٹی کیمرے لگائے جا رہے ہیں جو ایک کنٹرول روم سے منسلک ہوں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس نظام سے ٹریفک منیجمنٹ بہتر ہو گی اور جرائم پر بھی قابو پایا جائے گا۔ یہ سب بجا مگر میرا نہیں خیال کہ صرف سیکورٹی کیمرے ٹریفک میں ترتیب پیدا کر سکتے ہیں یا مجرموں کا ہاتھ روک سکتے ہیں کیونکہ دنیا میں جرم، غلطی اور زیادتی کو صرف اور صرف قانون کا مضبوط نظام ہی روک سکتا ہے۔ یہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جو پچھلی رات کے سناٹے میں چور، ڈاکو اور کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکٹے ہیں۔ دسمبر٢٠٠١ء میں الحمداللہ مجھے زیارت نبوی صلی علیہ وسلم کا شرف حاصل ہوا، جدہ میں قیام کے دوران ایک رات میں دو بجے کے قریب سفر کر رہا تھا میرے دوست نے اچانک ایک سنسان سڑک پر گاڑی روک لی، میں نے وجہ پوچھی تو اس نے سامنے انگلی لہرا کا جواب دیا ‘سگنل سرخ ہے‘ میں نے کہا ‘مگر سڑک تو سنسان ہے اس وقت تو کوئی بھی گاڑی آ جا نہیں رہی‘ اس نے قہقہہ لگایا اور کہا یہ پاکستان نہیں ہے میرے دوست! اگر کسی نے مجھے اشارہ توڑتے ہوئے دیکھ لیا تو پھر مجھے کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی‘۔ یہ ہے قانون اور قانون کا خوف۔ اس وقت میں دبئی میں ہوں یہاں مجھے کسی سڑک پر پولیس نظر آئی اور نہ ہی کیمرہ لیکن پورے شہر میں امن ہے، ٹریفک ایک نظام کے تحت رواں دواں ہے، ساری دکانیں اور شاپنگ سنٹر کھلے ہوئے ہیں مگر کسی دکان یا شاپنگ سنٹر کے باہر مجھے کوئی گارڈ وغیرہ نظر نہیں آیا، میں نے اپنے کزن سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ ‘پوری ریاست میں قانون کی حکمرانی ہے، تمام لوگ جانتے ہیں کہ ذرا بھی گڑبڑ ہوئی تو چند لمحوں میں پولیس پہنچ جائے گی، مجرم فوراّ پکڑا جائے گا، پورے دوبئی میں کوئی شخص مجرم کو نہیں بچا سکتا رہی بات ٹریفک کی تو یہاں ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کا تصور تک محال ہے۔ اول تو کوئی رولز کی خلاف ورزی کرتا نہیں اگر کوئی کر بیٹھے تو تو بچ نہیں سکتا‘۔ یہ ہے قانون اور قانون کا خوف۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو پاکستان میں قانون نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر کہیں قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نظر بھی آتے ہیں تو ان کا صرف ایک ہی مقصد نظر آتا ہے اس ملک کے حکمران طبقے کی جان، مال اور انا کی حفاظت۔ ذرا سوچئے جس ملک کی قانونی مشینری دن رات حکمرانوں کے جائز کاموں کو جائز بنانے میں لگی ہو اس مشینری کے پاس عام آدمی کے لئے کہاں وقت ہو گا۔ جس ملک کی عدالتوں میں دادے کے مقدمے کی پیروی پوتا کر رہا ہو، جس کے ہر جج کے پاس ڈیڑھ سو مقدمے ہوں اور وہ ان میں سے صرف پانچ مقدمے سنے اور باقی ایک سو پنتالیس کو اگلی تاریخ دے دے۔ جس ملک میں قاتل، پولیس اور ڈاکو عدالتی نظام میں سرمایہ کاری کرتے ہوں۔ جس ملک میں ہر غریب، ہر مظلوم پولیس سٹیشن جانے کی بجائے ظالم کے پاس چلا جاتا ہوں اور اس سے اپنی زندگی کی بھیک مانگتا ہو ۔ جس ملک کے سیانے مظلوم کو عدالت جانے کی بجائے آپس میں مک مکا کا مشورہ دیتے ہوں آپ اس ملک میں کیمروں کے ذریعے جرم روکنا چاہتے ہیں۔ کیمرے کیا کریں گے؟ زیادی سے زیادہ مجرم کی تصویر بنائیں گے اور عدالت میں ثبوت پیش کر دیئے جائیں گے مگر پھر کیا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں وہ تمام مجرم کیفرکردار تک پہنچ جاتے ہیں جن کے خلاف ثبوت اور گوائیاں موجود ہوتی ہیں۔ اس ملک میں ثبوت اور گوائیاں کافی نہیں سمجھی جاتی۔ صرف صدر پرویز مشرف پر حملہ کرنے والے کو سزائے موت دینا قانون کی حکمرانی یا انصاف نہیں۔ انصاف وہ ہوتا جس کا حصول عام آدمی کے لئے بہت آسان ہو، معاشرے میں کیمروں کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی درکار ہوتی ہے، لیکن ہم قانون کی حکمرانی پر توجہ دینے کی بجائے صرف کیمرے لگا رہے ہیں، کمال ہے ہم کاغذ کی کشتی کو ٹائیٹینک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں یا شاید ہم پیچھے کی طرف دوڑ کر ترقی کرنا چاہتے ہیں۔

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

ای گورنمنٹ

Posted on 04/01/2006. Filed under: ٹیکنالوجی, پاکستان, سیاست |

ہمارے جدید وزیراعظم جناب شوکت عزیز تمام سرکاری اداروں کو آپس میں منظم و مربوط کرنے کے لئے پاکستان میں ‘ای گورنمنٹ‘ کا نظام شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے کاروبار مملکت کی رفتار انتہائی حد تک تیز ہو جانے کی امید ہے مگر ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس پر عملدرآمد کب تک ممکن ہو سکے گا۔
کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور ای میل کے ذریعے رابطے جس قدر تیز تریں ہو چکے ہیں ماضی میں اس کا تصور بھی نا ممکن تھا اس نظام کو تقریبا تمام ترقی یافتہ ممالک اپنا چکے ہیں جس سے مہینوں کا کام گھنٹوں اور منٹوں میں ہو رہا ہے اور کاروبار مملکت کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کا پہیہ جس تیزی سے گھوم رہا ہے اتنی ہی تیزی سے اس کا ساتھ دینا انتہائی ضروری ہے مگر افسوس پاکستان میں ایسی تیزرفتار ترقی کے لئے کوئی کوشش نہیں ہو رہی بلکہ ابھی تک وہی برسوں پرانا نظام رائج ہے جس سے عوامی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم شوکت عزیز کا ‘ای گورنمنٹ‘ کا نظام اپنانے کا اعلان خوش آئند ہے مگر اس کے لئے جب تک حقیقی اور دور رس اقدام نہ اٹھائے جائیں ترقی کا یہ خواب ‘خواب‘ ہی رہے گا، کیونکہ ایک تو ابھی تک تمام سرکاری اداروں کی ویب سائٹس ہی نہیں ہیں، چند ایک کی ہیں تو وہ بھی نامکمل اور ناقص معلومات پر مبنی ہیں اور پھر کبھی ان کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اگر عوام ان ویب سائٹس کے ذریعے سرکاری اداروں کو اپنی شکایات ارسال کرتے ہیں تو انہیں اس کے جواب کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے، کچھ ادارے تو جواب دینے کی زحمت بھی گورا نہیں کرتے۔
ای گورنمنٹ کے لئے ضروری ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے اور ان کے خلاف شکایات کی صورت میں سختی سے نوٹس لیا جائے، تمام محکموں کے درخواست فارموں اور دیگر کاغذات کو ان اداروں کی ویب سائٹس پر مہیا کیا جائے اور تمام اداروں کے کام کی رفتار کو مستقل بنیادوں پر مانیٹر کیا جائے، تب ہی جا کر ای گورنمنٹ کے خواب کی تعبیر ممکن ہے وگرنہ یہ صرف خام خیالی ہی ہے۔

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

گیلیلیو Galileo

Posted on 29/12/2005. Filed under: ٹیکنالوجی |

ہماری ٹریولز ایجنسی میں دو ائرلائنز ریزرویشن سسٹم ہیں،
١۔ اباکس
٢۔ گیلیلیو
گیلیلیو سسٹم اپنی چند خوبیوں کی بدولت مجھے بیحد پسند ہے اور میری کوشش ہوتی ہے کہ میں تمام تر ریزرویشن گیلیلیو پر ہی کروں، گیلیلیو ایک جی۔ڈی۔ایس (گلوبل ٹریول ڈسٹری بیوشن سسٹم) سسٹم ہے، اس سسٹم کے ذریعے ہم تقریبا دنیا بھر کی تمام ائرلائننز اور ہوٹلز کی بکنگ ڈیرہ غازی خان میں بیٹھے بٹھائے کر سکتے ہیں مگر یہاں جس گیلیلیو کی بات ہو رہی ہے وہ ہے یورپی یونین کا سیٹلائٹ گیلیلیو جو چودہ ہزار میل اوپر اپنے مدار میں پہنچ گیا ہے۔ اسے سیٹلائٹ نیویگیشن میں ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔
سیٹلائٹ نیویگیشن یعنی مصنوعی سیارچوں کی مدد سے اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے راستے کا تعین کرنا۔ اب تک اس طرح کا خلائی نظام صرف امریکہ کے پاس تھا جسے عرف عام میں جی پی ایس ٹیکنالوجی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جی پی ایس ٹیکنالوجی کا استعمال آج کل کار کے ڈرائیور بھی کررہے ہیں جو کار کے چلنے کے ساتھ ساتھ راستہ بتاتا رہتا ہے۔
یورپی یونین کے اس گیلیلیو سیٹلائٹ پروجیکٹ پر بھارت، چین اور دیگر ممالک نے بھی سرمایہ کاری کی ہے۔گیلیلیو نظام کے اس پہلے سیٹلائٹ کو قزاقستان کے شہر بیکانور سے سویوز راکٹ کے ذریعے بدھ کی صبح جی ایم ٹی وقت کے مطابق پانچ بجکر بیس منٹ پر خلاء میں بھیجا گیا۔ اس پہلے سیٹلائٹ کا نام ہے جیوو اے اور یہ گیلیلیو کے نظام کی کامیابی کو ٹیسٹ کرے گا۔ اس کا اہم کام یہ بھی ہوگا کہ گیلیلیو نظام کی ایٹمی گھڑیوں کی جانچ بھی کرے۔ یہ سیٹلائٹ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت طے پانے والے ریڈیو فریکوینسیز کو بھی اپنی گرفت میں لے گا اور آئندہ چھ ماہ کے اندر اس کے سِگنل زمین پر بھیجنا شروع کردے گا۔سائنسدان امید کررہے ہیں کہ یہ کام چند دنوں میں ہوسکے گا۔ جیوو-اے کو بنانے میں تین سال لگے ہیں اور یہ ایک خلائی جہاز کی طرح ہے۔
یورپ کے لیے یہ ایک اہم مشن اس لیے بھی ہے کیوں کہ اس نے کبھی زمین سے تئیس ہزار کلومیٹر کے آربِٹ میں اس طرح کوئی سیٹلائٹ نہیں بھیجا ہے۔ اس طرح گیلیلیو نیویگیشن نظام میں کل تیس سیٹلائٹ چھوڑے جائیں گے جو پوری زمین کا احاطہ کرسکیں گے۔

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

خبر ہے گرم

Posted on 13/12/2005. Filed under: ٹیکنالوجی, پاکستان, سیاست |

جسے اللہ رکھے
زلزلے کے ٦٤ دن بعد ایک ٤٠ سالہ خاتون کو کمسر نامی کیمپ کے علاقہ میں ملبہ سے زندہ نکال لیا گیا ہے۔ زلزلے کے اتنے طویل عرصہ بعد کسی کا ملبہ سے زندہ ملنے کا یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ یہ خاتون ملبہ کے سوراخوں سے اندر آنے والے پانی اور وہاں پہلے سے موجود کچھ خوراک کے سہارے زندہ رہی۔
زلزلہ ذدگان کی امداد پارلیمنٹ ہاؤس میں تقسیم
زلزلہ زدگان کے لئے گرم کپڑوں کا ٹرک متاثرہ علاقوں کی بجائے پارلیمنٹ ہاؤس کی کار پارکنگ میں خالی کیا گیا اور امدادی کپڑے متاثرین کے بجائے سرکاری ملازمین نے اٹھا لیے۔ جمعرات کو پارلیمینٹ کی کار پارکنگ میں ان گرم کپڑوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور ان استعمال شدہ کپڑوں سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے کئی ملازمین اپنی پسند کی چیزیں تلاش کرتے نظر آئے۔ دو ملازمین نے ان کپڑوں کی بوریاں بھری ہوئیں تھیں جبکہ کچھ نے گٹھڑیاں باندھی ہوئیں تھیں اور اپنے گھر لے جارہے تھے۔ ان سے جب پوچھا کہ یہ زلزلہ زدگان کا امدادی سامان ہے اور وہ کیوں لے رہے ہیں تو محمد امین نے کہا کہ ’ہم بھی غریب ہیں اور ہمارا بھی حق ہے‘۔
بوریاں بھر کر جانے والوں نے تصویر بنانے سے روکا۔ انہوں نے نام بتانے سے بھی گریز کیا اور شرماتے ہوئے بوری کندھے پر اٹھائی اور چل دیے۔ زلزلہ زدگان کے لیے لائے گئے گرم کپڑوں کے اس ڈھیر سے جب مختلف ملازمین کپڑے چن رہے تھے اور کچھ لوگ کپڑے لے جا رہے تھے تو اس وقت قریب میں دو پولیس اہلکار بھی موجود تھے جو کار پارکنگ میں ڈیوٹی کرتے ہیں۔
زلزلہ زدگان کے لیے جمع کیے گئے گرم کپڑے پارلیمان کی کار پارکنگ میں اتارنے اور متاثرین کے بجائے ملازمین کی طرف سے لے جانا امدادی سامان کے غلط استعمال کی اپنی نوعیت کی انوکھی مثال ہے۔
نژاد کے اسرائیل مخالف بیان
او آئی سی کے اجلس میں شرکت کےلیئے سعودی عرب کے دورے پر ایرانی صدر کے اسرائیل مخالف پر اسرائیل سمیت یورپ اور امریکہ نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس بیان کی مذمت کی تھی جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے بھی ایران کے صدر احمدی نژاد کے اسرائیل مخالف بیان پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا تاہم جرمنی کے ہفت روزہ جریدے ََ دیر شپیگل ََ میں ہنریک بروڈر نے اپنے ایک مضمون میں احمدی نژاد کے بیان کو منطقی بیان قرار دیا ہے۔ ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمنی کے مشہور ہفت روزہ اخبار اشپیگل نے لکھا ہے کہ صیہونی حکومت کے بارے میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کا بیان منطقی ہے اور مغرب کو اسے تسلیم کرلینا چاہے۔ ہفت روزہ اشپیگل نے ہنریک بروڈر کا مضمون شایع کیا ہے جس میں آیا ہے کہ صدر احمدی نژاد کا بیان تاریخی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے اور ان کے بیان پر کسی طرح کے اعتراض کی گنجائیش نہیں ہے کیونکہ مشرق وسطی میں کشیدگي کا سبب یہودیوں کا قتل عام نہیں ، بلکہ یورپیوں کی یہودی مخالف پالیسیاں ہیں۔ اس جرمن اخبار نے لکھا ہے کہ آج فلسطینی قوم یورپی ملکوں کے ظلم و ستم کا تاوان دے رہی ہیں اور اگر اس دنیا میں انصاف نام کی کوئی شے ہوتی تو یہودی ملک کو جرمنی کے شمال میں ہونا چاہیے تھا۔ ہفت روزہ اشیپگل کے مطابق جن ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد صیہونی حکومت کو وجود بخشا ہے ان کا مقصد یہودیوں کو وطن فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ وہ صرف ہولو کاسٹ سے بچنے والے پندرہ لاکھ یہودیوں کو یورپ سے نکالنا چاہتے تھے۔ اس مشہور جرمن اخبار کے مطابق یورپی ملکوں نے ایک مشکل کے حل سے دوسری مشکل پیدا کی کیونکہ ملت فلسطین کو جس نے نہ یہودیوں کا قتل عام کیا ہے اور نہ ان کے لیے لیبر کیمپ بنائے ہیں وہ یورپی ملکوں کی غلطی کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور اس کا ملک یہودیوں نے بانٹ لیا ہے
ایف ایم ٹیکنیک: فرقہ ورانہ فساد
پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں ایف ایم ٹیکنیک کے غیر قانونی استعمال نے فرقہ ورانہ فساد کا سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اہل سنت اور پنج پیری فرقوں کے علماء کے فرقہ ورانہ مباحثے نےایک دوسرے کے خلاف جہاد کے اعلان کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دونوں فرقوں کے علماء کچھ عرصے سے مقامی ساختہ ایف ایم سٹیشن کو استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کر رہے تھے۔ مگر صورتِ حال اس وقت بگڑ گئی جب اہل سنت کے مقامی رہنما مفتی منیر شاکر نے باڑہ بازار میں اپنے ہزاروں مسلح پیرو کاروں کے ایک جلسہ میں پنج پیری مسلک کے سربراہ پیر سیف الرحمن کو ایک ہفتہ کے اندر علاقہ چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
چہرے کی تبدیلی
فرانس میں ڈاکٹروں نے انسانی تاریخ میں چہرے کی تبدیلی کا پہلا آپریشن کیا ہے۔ ایک متنازعہ آپریشن کے دوران سرجنوں نے ایک دماغی طور پر مردہ انسان کے چہرے کی رگیں، بافتیں اور پٹھے حاصل کر کے ایک اڑتیس سالہ زخمی عورت کے چہرے پر لگا دیے۔

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

Computer Joke

Posted on 01/11/2005. Filed under: ٹیکنالوجی, طنز و مزاح |

سوفٹ ویئر انجینئر سے شادی مت کیجیئے گا ورنہ مندرجہ ذیل مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ایک Software Engineer اور اس کی بیوی کے درمیان گفتگو ! Software Engineer اپنی بیوی سے ہائے ڈیئر میں ابھی Log In ہوا ہوں بیوی ۔ کیا آپ میری ساڑھی لیکر آئے ہیں؟ شوہر ۔ Bad Command or File Name بیوی ۔ لیکن میں نے آپ کو ابھی صبح ہی بتایا تھا۔ شوہر ۔ Erroneous Abort Retry Cancel System بیوی ۔ میں نے آپ سے شادی کر کے غلطی کی۔ شوہر ۔ Data Type Mismatch بیوی ۔ آپ کچھ کھانا پسند کریں گے؟ شوہر ۔ Hard Disk Full بیوی ۔ آپ کی زندگی میں میری کیا حیثیت ہے؟ شوہر ۔ Unknown Virus Detected بیوی ۔ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں یا کہ اپنے کمپیوٹر سے؟ شوہر ۔ Too many parameters بیوی ۔ میں اپنے والد کے گھر جارہی ہوں۔ شوہر ۔ Program perform illegal operation it will close بیوی ۔ میں آپ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں گی۔ شوہر ۔ Close all Program & logout for another user بیوی ۔ آپ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ شوہر ۔ Shut Down the Computer بیوی ۔ میں جا رہی ہوں۔ شوہر ۔ It’s now safe to turn off your Computer

Read Full Post | Make a Comment ( 1 so far )

ایک کام جسے دنیا کے ذہن انجام نہیں دے سکتے

Posted on 30/08/2005. Filed under: ٹیکنالوجی, پاکستان, سیاست |

گزرے پچاس برسوں میں سائنس نے بے انتہا ترقی کی ہے کمپیوٹر کو ہی لے لیں ایک چھوٹے سے ڈبے میں کائنات کو سمو کر رکھ دیا گیا ہے۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے نکال دی، آپ انٹرنیٹ آن کرتے ہیں تو تمام کائنات آپ کی دسترس میں آ جاتی ہے۔ یہ سب بہت آسان دکھائی دیتا ہے مگر اس تک پہنچنے میں لاکھوں دماغوں کی محنت استعمال ہوئی ہے تب جا کر انسانی عقل کو خیرہ کرنے والے اس معجزے نے جنم لیا۔ آج کے جدید دور میں کچھ بھی نا ممکن نظر نہیں آتا لیکن ایک کام ایسا ہے جسے دنیا کے تمام ذہن مل کر بھی انجام نہیں دے سکتے۔
امریکہ کا مجسمہ آزادی، فرانس کا ایفل ٹاور یا تاج محل کو ہی لے لیں، یہ عمارتیں انسانی عقل کا شاہکار ہیں۔ انسان کا چاند پر قدم رکھنا، مصنوعی سیاروں کا بروقت پتا دینا، بلٹ ٹرینوں کی سینکڑوں فی گھنٹہ کی رفتار، ہزاروں میل دور چھپے دشمنوں کو میزائلوں سے تباہ کرنا، لیزر ٹیکنالوجی سے پیجیدہ امراض کا علاج، آسمان کا سینہ چیر کر اور سمندر کی چھاتی پھاڑ کر فاصلوں کو وقت کے تابع کر دینا کوئی معمولی کام نہیں ہیں۔ کائنات کو اپنی مٹھی میں بند کر لینے کے باوجود ایک کام ایسا ہے جسے دس آئن سٹائن مل کر بھی انجام نہیں دے سکتے۔
وہ مشکل ترین کام کون سا ہے ؟ ایک مزدور کی تنخواہ تین ہزار سے چار ہزار تک ہوتی ہے وہ مشکل ترین کام یہ ہے کہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ایجاد کرنے والا، امریکہ کا مجسمہ آزادی، فرانس کا ایفل ٹاور یا تاج محل کو حقیقت کا روپ دینے والے، وقت کو اپنی مٹھی میں بند کر دینے والے تمام ذہن، عجوبے تخلیق کرنے والے تمام سائنس دان مل کر بھی ان تین سے چار ہزار روپوں میں پانچ افراد پر مشتمل ایک گھرانے کا بجٹ نہیں بنا سکتے۔ تین سے چار ہزار میں ایک گھرانے کا بجٹ تیار کرنا سینکڑوں عجوبے تخلیق کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے لیکن اس کے باوجود لوگ ہیں کہ جئے جاتے ہیں۔ ایک طرف غربت کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف حکومتی ذہن اسے مزید بڑھاوا دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ آئے روز پیٹرول کی قیمت میں اضافہ سے مہنگائی میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
عجیب سادہ لوح عوام ہیں خاموش رہ کر اپنے بجٹ میں اضافہ کرنا چاہتے ہین نہیں جانتے جب روئے بغیر بچے کو دودھ نہیں ملتا تو عوام خاموش رہ کر خط غربت سے اوپر کیسے آ سکتے ہیں؟ شور مچے گا تو ہی وہ فارمولا ایجاد ہو گا جس سے تین سے چار ہزار میں ایک گھرانے کا بچٹ بنایا جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ خاموش رہ کر تکلیف برداشت کرتے ہیں یا شور مچا کر حکمرانوں کو اپنی تکلیف بتاتے ہیں۔

Read Full Post | Make a Comment ( None so far )

اگلے‌ تحاریر»

Liked it here?
Why not try sites on the blogroll...