بیس سالوں میں مجھے کیا ملا؟

Posted on 18/08/2009. Filed under: پاکستان, تعلیم, رسم و رواج | ٹيگز:, , , , , , , , |

ایک پردیسی کی دکھ بھری کہانی جو اپنے اچھے مستقبل کی خاطر ملک چھوڑتا ہے، خود تو دوزخ جیسی زندگی گزارتا ہے لیکن پیچھے روپے کی ریل پیل اپنا اثر دکھاتی ہے اور پھر رشتوں ناطوں کی ایک عجیب مثلث بن جاتی ہے۔ پردیسی صرف ایک دولت کمانے والی مشین بن کر رہ جاتا ہے۔

20 سال پہلے جب ميں سعودى آيا تھا تو ايک ريال کا 12 روپے تھا سوچتا کہ دو لاکھ جمع ہو جائیں تو واپس چلا جاؤنگا اب بيس سال ہو گئے اور Position وہى ہے کہ چند لاکھ جمع ہو جائیں اور واپس چلا جاؤں۔

ان بيس سالوں ميں مجھے کيا ملا؟

بچوں سے دوری، محبت ميں کمی، بچے وہاں ميں یہاں

وہ ميرى محبت سے محروم ميں مجبور

پہلے پانچ ہزار روپے ميں گزارہ ہوتا تھا اور اب 25 ہزار بھى کم پڑتے ہیں

نيا گھر بنايا بچوں کو پڑھايا ليکن مجھے کيا ملا؟

وہاں کوئى جانتا نہیں، یہاں کوئى مانتا نہیں

بچے خوبصورت مکان ميں رہتے ہيں ميں يہاں ايک Bed کا مہمان کمر کا درد بڑھتا جا رہا ہے اور ڈاکٹر Panadol پر Panadol ديۓ جا رہے ہیں۔ جوانى ديکھى نہیں اور بڑھاپا دکھ گيا۔ کوئى انکل کہتا ہے تو غصہ آتا ہے اور آئينہ ديکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس نے صحيح ہى کہا ہے۔

آج چاچى مر گئی، ابو کو بخار ہوگيا، بچے آوارہ گردى کرنے لگے، پٹرول مہنگا ہو گيا، بجلى کا بل زيادہ ہوگيا، ٫سوئی گيس کا بل ڈبل ہو گيا۔

کويى بتائے مجھے کہ مجھے کيا ملا ان بيس سالوں ميں۔

ميں کسى بچے کوگود ميں اٹھا کر محبت نہیں کر سکا۔ انگلى پکڑ کر سکول نہیں چھوڑ سکا۔

ميرے سارے دوست بچھڑ گۓ، رشتے داروں کی نظر ميرے سامان پر ہوتی ہے۔ سب کی ڈيمانڈ ہوتی ہے کہ چاچا، ماما، پاپا مجھے يہ چاہیے، وہ چاہیے، پر مجھے کيا چاہیے کسی کو پتہ نہیں۔

بچے يہاں تک کہنے لگے کہ ابو جب آپ آتے ہيں تو ہمارا سارا روٹين چينج ہو جاتا ہے۔ بيوى تو ملکہ ہے ميرے جانے پر اسے لگتا ہے کہ اب يہ حکم چلائينگے۔

ايرپورٹ سے گھر تک کیا سلوک ہوتا ہے وہ سالوں سال دل ميں کسک بن کر رہتا ہے کہ اگلے سال بھی يہی سلوک ہوگا۔

کوئی بتائے مجھے کہ ان بيس سالوں ميں مجھے کيا ملا؟

بيوی کہتی ہے کہ ايک دو سال اور رہو ابھی بچوں کی شادی کروانی ہے اور بھی بہت سارے کام ہیں۔

بيٹياں کہتی ہيں ابو جہاں بيس سال ميں کچھ نہیں بنا تو وہاں دو چار سال میں کیا ہو گا اب تو آجاؤ ميں سوچتا ہوں کہ کروں تو کیا کروں؟

Read Full Post | Make a Comment ( 4 so far )

وفا

Posted on 05/08/2009. Filed under: پاکستان, تعلیم, رسم و رواج | ٹيگز:, , , , , , , , , , |

ہم کواُن سے وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے کہ وفا کیا ہے؟

اس زمانے میں کوئی کسی سے وفا نہےں کرتا۔ اعتبار کسی پر کرتے ہے وفا کوئی اور کرتا ہے۔ وفا تو دِل کی الفت سے ہوتی ہے۔ جس میں وفا نہےں اُس میں کچھ نہیں ہے۔ وُہ زندگی کےجذبات سے محروم ہے۔ دُعا وفا ہے۔ محبت کے لئے وفا کا ہونا لازم ہے۔
وفا کا عمل دِل میں احترام سے ہوتا ہے، یہ مادی جذبہ نہےں روحانی معاملہ ہے۔
انسانی جذبوں میں سب سے حسین جذبہ ”وفا“ہے۔ ہرخوبصورت رشتہ کی بنیاد ایفا ہے۔ رشتہ دار کا فخر وفا میں ہے۔ محبت کا درخت وفا کے پانی سے پھلتا پھولتا ہے اور اعتماد کا پھل دیتا ہے۔ وفا ایک عہد ہے اپنی ذات کے ساتھ قربانی کا جذبہ۔ وفا میں ہمیں صرف وُہ چہرہ پسند ہوتا ہے؛ جسکی خاطر ہم جیتے ہیں۔ اُسکی خوشی ہماری خوشی، اُسکا غم ہمارا غم ہوتا ہے۔
وفا ایک ایسا جذبہ ہے، جس کے رشتے بے شمار ہیں۔ دین، ملک، خطہ، قوم، خاندان، دوست ہمیں تمام اپنی جان سےعزیز ہیں۔ وفا میں فریب موجود نہیں۔ وفا میں دھوکہ نہیں ہوت اوفا تو مر مٹنا ہوتا ہے۔
وفا احساس نہیں بلکہ عہد نبھانا ہے۔ ایساعہد جو فخر کا باعث ہو۔ تمام زندگی کا اثاثہ وفا ہے۔ وفا محبت کا ایسا لمحہ ہے۔ جس میں فراق نہیں۔ وفا محبوب کی جانب سے نہیں اپنی جانب سے ہوا کرتی ہے۔ وفا محبت کی ترجیح طے کرتی ہے۔ وفا زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے۔ وفامادہ پرستی کی بجائےخلوص سکھاتی ہے۔ حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ وفا ہی انسان میں وُہ جذبہ پیدا کرتی ہے۔ جس میں انسان کسی کے لئے کٹ مرتا ہے۔ حسین جذبہ! وفا۔
باکردار انسان وفا کاجذبہ رکھتا ہے۔ با وقار اقوام اپنے وطن سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہیں۔ خود کو قربان کرڈالتے ہیں۔ وفا میں اپنی ’میں‘ نہیں رہتی۔ دوسرے کی تعظیم و تکریم ہی تحریم بن جاتی ہے۔ قوموں میں عظمت کا نشاں وفا کا ہی ہوا ہے۔
آج ایک سوال آن پڑا! وفا کا کبھی جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔ میاں بیوی کا رشتہ وفا سے ہی پھلتا پھولتا ہے۔ امپورٹڈ کلچر نے اس خطہ کے حسین ترین جذبہ وفا کا قتل عام شروع کردیا۔
ایک دور تھا،؛ آقا و غلام کا رشتہ تھا۔ مالک خیال رکھتا تھا، ملازم جان پیش کرتا تھا۔ Profesionalism رویہ اپنے ساتھ leg pulling کو قانونی اجازت دے رہا ہے۔ آج وفا معدوم ہے۔ ملکی حالات مخدوش تر ہوئے۔ نااہل اہل بن بیٹھے۔ ہر فرد دوسرے کی کرسی پہ نظر لگائے بیٹھا ہے۔ آج زندگی کیلیئے امان کی دُعا کرنے والاکوئی نہیں، ایمان خود امان میں نہیں رہے۔
خاندان دولت کے بکھیڑوں میں، آپسی دشمن بن کر بکھر چکے، دوست دوستی میں نفع کما رہا ہے، فائدہ گن رہا ہے۔ جذبات کی تباہی گنتی سے ہوا کرتی ہے۔ جذبات کیلیئے تعداد بے معنٰی ہے، خلوص اہم ہے۔ دین کی وفاداری کو چند لوگ دُکان بنائےبیٹھے ہیں۔ مجاورین مزار پہ مزار والے کےنام پہ اپنی اپنی جلیبیوں کی کڑھائیاں سجائے بیٹھے ہیں۔
ملازمین ملازمت کر رہے ہیں، ملکی خدمت کتابی بات رہ گئی ہے۔ افسوس! جذبات میں وفا کا قتل ہوچکا۔ محبت ناپید ہوئی۔
وفادار تو ہر لمحہ امتحان میں ہوتا ہے۔ وفا تو دِل میں ہوتی ہے۔ اُسکی نمائش نہیں ہوسکتی۔ وفا تو ظاہراً محسوس ہوتی ہے مگر حقیقتاً یہ احساس دلوں سے دِلوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اِسکی پیمائش کے لیئے پیمانے مقرر نہیں۔ آپکے دِل میں جو درجہ ہے اُسکی کیا کوئی درجہ بندی کرسکتا ہے؟ ایسا کرنا تو نا انصافی ہے۔ جذبات کا مجروح کر دینا ہے جرم ہے۔ اندر کے انسان کے خوبصورت احساس کوقتل مت کرو۔ جو خود کو تمہارے حق میں بیچ چکا۔ جیسا بھی ہو! اُسکی قدر رکھو! بات تسلیم کرو یا نہ کرو مگر اُسکو جھٹلاؤ مت۔ وفادار توخدمت میں ہمیشہ کے لیئے خود پیش ہوچکا۔ پیش کیا نہیں گیا۔ جس نے خود اپنے اندر وفا پیدا نہ کی۔ وُہ محبت کو کیا جان پائےگا؟
آج وفا کیوں نہیں رہی؟ مادہ پرستی نے وفا کو حالت نزع پہ لا ٹھہرایا۔ اب مزید ایک سوال آن پڑا، وفا خود میں کیسے پیدا کی جائے؟ دِلوں میں خلوص پیدا کیجیئے، وفا خود بخود پیدا ہونے لگےگی۔ خلوص کیسے پیدا ہوتا ہے؟ چاہت سے۔ دوسروں کا خیال رکھنے سے بھی وفا پیدا ہوتی ہے۔ میاں بیوی کا ’قبول کرنا‘ دراصل یہی ہے۔ پاکستا ن کو تحریک پاکستان سےسمجھیئے؛ اِک روز کوئی جملہ، کوئی بات آپکےدِل پر اثر کر جائےگی۔ وطن سے وفا کیا ہے؟ ملازمت کو ضرورت نہ سمجھیئے، ملکی خدمت جانیئے۔ ماہوار ٢٤٨٠٠ روپوں تنخواہ ١٨ گھنٹے یومیہ کی ڈیوٹی کو کم نہ جانیئے بلکہ مزید١٠ گھنٹوں کو بھی قومی خدمت سمجھیے۔
وطن کی مٹی میں خوشبو وفا کے جذبہ سے ہے۔ وفا پریشانیاں لاتی نہیں پریشانیاں دور کرتی ہے۔ وطن کی مٹی کو وفا کےجذبہ سے ماتھے پہ مل لو، بھول جاؤ گے تمام غموں کو۔ پاکیزہ مٹی بھی اِک روحانی دوا ہے۔ مٹی کی پاکیزگی وفا میں ہے۔
اللہ والے اللہ اور رسول سے وفا رکھتے ہوئےمٹی میں شامل ہوکر بھی وفا کی خوشبو بکھیرتے ہیں، یہی وفا عشق کی معراج ہے۔
(فرخ نور)

Read Full Post | Make a Comment ( 3 so far )

اور بھی غم ہیں زمانے میں

Posted on 19/04/2005. Filed under: پاکستان, رسم و رواج | ٹيگز:, , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , |

اتنا ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں کہ اب خود کو سمیٹنا مشکل ہو گیا ہے جی چاہتا ہے اس دنیا سے کہیں دور چلے جائیں جہاں سکون ہو، جہاں امن کی فاختائیں بولتی ہوں، جہاں لمحے سرگوشیاں کرتے ہوں، جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں، جہاں کسی زنداں کا خوف نہ ہو، جہاں ماتم نہ ہوتے ہوں، جہاں دل نہ روتے ہوں، جہاں کوئی اپنا نہ ہو، جہاں ہم ہوں صرف ہم ۔۔۔۔۔۔ ! مگر جب خواب آگیں تصورات ٹوٹتے ہیں تو ہم بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ آنکھیں خون اگلنے لگتی ہیں، دل سے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں کہ یہ کیسی راتیں ہیں کہ نہ نیند اپنی نہ خواب اپنےکوئی چیز بھی تو ہماری اپنی نہیں، سہارے ہیں تو قدم قدم پر گرنے لگتے ہیں اور یہ کیسے اپنے ہیں کہ ہر طرف تنہائیوں کے میلے ہیں ہم خود کو ایک حصار میں قید محسوس کرتے ہیں لوگ حوصلہ دیتے ہیں ہمدردی کرتے ہیں کہتےہیں کہ ہر رات کی سویر ہے لیکن کون انہیں سمجھائے کہ جن کی راتیں ہی اپنی نہ ان کی بھی کبھی سویر آتی ہے۔
یہاں تو جیون روگ ہے، پچھتاؤں کا کھلا سمندر ہے زندہ انسان زندگی کو ترستا ہے نہ جینا اپنا نہ مرنا اپنا کوئی چیز بھی تو اپنے بس میں نہیں، بے بسی اور بے حسی نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ تم اتنا بتاؤ کہ جنہیں خود سے پیار ہوتا ہے وہ اگر ایک پل بھی خود سے نہ ملیں خود کو آئینے میں نہ دیکھیں تو کیا کیفیت ہوتی ہو گی ان کی ۔۔۔۔ ! اس سال کے ایک ایک مہینے، ایک ایک دن، ایک ایک لمحے کو سوچو ذرا کہ جب ہم نے خود کو نہیں دیکھا خود سے نہیں ملے باوجود اس کے کہ ہمیں خود سے بے انتہا پیار ہےکیونکہ دنیا میں کوئی اپنے جیسا ملا ہی نہیں ” ہاں ” ایک تم میں اپنا عکس دیکھا تھا۔ تم ہمارا آئینہ ہو، ایک تم ہی تو تھے جسے دیکھ کر ہم زندگی کی سانسیں لیتے تھے مگر جب سے تم روٹھ گئےتب سے ہمارا آئینہ بھی کہیں کھو گیا ” سنو ” جو تم نہیں نا! تو یہ نا سمجھنا کہ کوئی ہمارا نہیں سب کچھ ہمارا ہے مگر صرف تم نہیں ہو۔ اب ہمیں تمھاری ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ فضائیں ہماری ہیں یہ کائنات ہماری ہے اور ہماری دولت جس سے ہمیں بے انتہا پیار ہے تنہائی ہے یہ سب ہمارے دوست ہیں جو کبھی ہم سے بےوفائی نہیں کرتے ہم نے اب جان لیا ہے کہ

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

تو اتنا بتائیں تم کو کہ اب ہمیں تمھاری محبت کا غم نہیں رہا کتنے دکھ ہمارے معاشرے میں جن پر ہم روتے ہیں کڑھتے رہتے ہیں ان پر، یہاں بھائی بھائی کا دشمن ہے، انسان انسان کی پہچان سے انکاری ہے۔

اگر نقاب الٹ دوں تمام چہروں سے
تو میرے شہر کا اک شخص بھی شریف نہیں

یہاں عزتوں کے لٹیرے ہیں، یہاں چور ڈاکو اور دہشت گرد ہیں، یہاں دھماکے ہوتے ہیں اور پل بھر میں بے گناہ لوگ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، یہاں ہارس ٹریڈنگ ہے، یہاں کرپشن ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ ثبوت نہیں ملتے، اب بھلا آنکھوں کے اندھوں کو کیا دکھتا ہے دس ہزار تنخواہ لینے والا ایک آفیسر پچاس لاکھ کی کوٹھی میں رہتا ہے اس کے متعلق اور کس قسم کے ثبوت چائییں کیا یہ ثبوت کافی نہیں لیکن کیا کریں کنویں میں بھنگ پڑی ہے حمام میں سبھی تو ننگے ہیں پھر کون کس کو پکڑے گا۔
یہاں سیاستدان ہیں جو راہنما کم راہزن زیادہ ہیں جو وطن عزیز کا نہیں اپنا مفاد سامنے رکھتے ہیں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے کروڑوں کی جائدادیں بناتے ہیں اور عیاشی کرتے ہیں لیکن کوئی روکنے والا نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، کروڑوں روپے شاہانہ خرچ کرنے والے ان سیاستدانوں کے اگر گوشوارے چیک کریں جو یہ الیکشن کے موقع پر جمع کراتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ سب کے سب بھیک منگے ہیں، سب ہی زکواة کے مستحق ہیں لیکن رہتے عالیشان بنگلوں میں اور گھومتے قیمتی گاڑیوں میں ہیں۔
یہاں فرعون نما جاگیردار ہیں جو کسی خدائی فوجدار کی طرح جاگیر میں اپنا حکم چلاتے ہیں جو غریب کسانوں اور ہاریوں کی جان و مال اور عزتوں کے لٹیرے ہیں۔ یہاں سرمایہ دار ہیں جو غریب کارکنوں کا پیٹ چاک کر کے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ یہاں جوکر نما جعلی پیراور ملاں ہیں جن کی گذربسر عرسوں کی آمدنی اور تعویزگنڈوں پر ہے، بے عملی، جہالت، بدعت ان کا خاصہ، علم و عمل سے بے بہرہ کفر کے فتوؤں پر مہر ثبت کرتے رہنا ان کا کام ہے۔ مسلمانوں کو مذہب کے نام پر لڑانا ان کا دھرم ہے۔ یہاں قصائی نما ڈاکٹر ہیں جن کو کسی کی غربت، درد، تکلیف اور اذیت کا کوئی احساس نہیں ہوتا انہیں صرف اپنی فیس سے مطلب ہوتا ہے ان کی بلا سے کوئی جئے یا مرے ان کے پانچ سو کھرے! غرض کہاں تک سناؤں ظلم کے یہ فسانے یہاں تو ظلم ہی ظلم ہے، یہاں ایمان بکتے ہیں ضمیر خاموش ہیں، یہاں بےبسی اور بےحسی کی لمبی داستانیں ہیں، یہاں انسان کی قیمت ہی کیا ہے صرف چند کھوٹے سکے۔
یہاں کشمیر ہے جہاں راہ چلتی خواتین، دھول سے اٹی ہوئی ڈارھی والے بزرگوں، سکول جاتے بچوں اور دودھ پیتے نونہالوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو سرعام برہنہ کردیا جاتا ہے اور پھر شیطان کی خوشی میں ڈوبی خوفناک چیخیں سنائی دیتی ہیں اس کے بعد صرف ماتم کرتی آہیں اور سسکیاں رہ جاتی ہیں۔
یہاں فلسطین ہے، یہاں عراق ہے، یہاں افغانستان ہے جہاں ظلم و بربریت کی نئی تاریخیں رقم ہو رہی ہیں اور بھی بہت سے دکھ ہیں جو ہمیں آزردہ کر دیتے ہیں ” پر ” اتنا تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تعصب ہمارا اپنا پھلایا ہوا ہے ہم خود مسلمان ہی بکھر کر رہ گئے ہیں، ہم میں اخلاق اور رواداری نہیں رہی، ہم علاقائی مسئلوں پر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں، ہم مذہبی بنیادوں پر جگھڑتے رہتے ہیں ہم آج بھی پہلے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ یا مہاجر ہیں اور بعد میں پاکستانی، ایک سویا ہوا پاکستانی !
ہم قرآن کے بتائے ہوئے سیدھے راستے کو چھوڑ کر شیطانیت کے راستے پر چل پڑے، عریانی و فحاشی کو ہم نے ثقافت اور روشن خیالی کا حسین نام دے کر اپنا لیا، بے حیائی کو ترقی کا زینہ بنا لیا، اس کے باوجود ہم مسلمان ہونے کے دعوے دار ہیں۔ حق بات تو یہ کہ ہم اپنے سچے مذہب سے دور ہو گئے اسی لئے آج ہم پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں۔ دنیا میں ہم ایک عرب سے زائد مسلمان ہیں لیکن ہیں ان ریت کے ذروں کی طرح جن کو تیز ہوا کسی بھی لمحے اٹھا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی ہے۔

Read Full Post | Make a Comment ( 1 so far )

Liked it here?
Why not try sites on the blogroll...